#OpenPoetry عشق آباد فقیروں کی ادا رکھتے ہیں اور کیا اس کے سوا اہل انا رکھتے ہیں ہم تہی دست کچھ ایسے بھی تہی دست نہیں کچھ نہیں رکھتے مگر پاس وفا رکھتے ہیں زندگی بھر کی کمائی یہ تعلق ہی تو ہے کچھ بچے یا نہ بچے اس کو بچا رکھتے ہیں شعر میں پھوٹتے ہیں اپنی زباں کے چھالےنطق رکھتے ہیں مگر سب سے جدا رکھتے ہیں ہم نہیں صاحب تکریم تو حیرت کیسی سر پہ دستار نہ پیکر پہ عبا رکھتے ہیں شہر آواز کی جھلمل سے دمک اٹھیں گےشب خاموش کی رخ شمع نوا رکھتے ہیں اک تری یاد گلے ایسے پڑی ہے کہ "علی "آج کا کام بھی ہم کل پہ اٹھا رکھتے ہیں علی شام ، عرف ٹوٹو بھائی #نشہ