Nojoto: Largest Storytelling Platform

جو ریاض احمد نائیکو ہر دفعہ ہر پیغام میں پاکستان ک

جو ریاض احمد نائیکو ہر دفعہ ہر پیغام میں پاکستان کا نام لیتا تھا۔ پاکستان کی محبت کا دم بھرتا تھا۔ پاکستان مخالف گروہوں اور تنظیموں کے خلاف جاتا تھا۔ پاکستان کے حق میں نعرہ لگاتا تھا۔ اس کو پاکستان نے کیا دیا؟ تعزیت کے چند بول؟ محکمۂ خارجہ کی معمول کی جملے بازی؟ اُسے بھی بھلا دیا۔ کسی نامور صحافی نے کچھ بولا نہیں، کسی حکومتی شخصیت کی زبان نہیں ہلی، اپوزیشن سے تو خیر امید رکھنا ہی بے وقوفی ہے۔ یہاں تو یہ حال ہے کہ یہ عوام سے یہ فرق نہیں ہو رہا کہ تصویروں میں موجود شخص ریاض نائیکو ہے یا تنویر احمد ملک ہے یا ڈاکٹر برہان ہے یا کون ہے۔ بغیر سوچے سمجھے تصویریں اور ویڈیوز اپلوڈ کرتے جا رہے ہیں۔ کس نے عوام میں شعور اجاگر کرنا تھا؟ کس نے عوام کو ہر دم باخبر رکھنا تھا؟ کس کی ذمہ داری تھی کہ لوگوں کو بتائے کہ کشمیر میں کون پاکستان کا اور اسلام کا خیر خواہ اور حامی ہے اور کون مخالف اور غدار ہے۔ میڈیا اور عوام تو محبوبہ مفتی اور فاروق عبداللہ اور عمر عبداللہ جیسے ٹکے ٹکے کے لوگوں اور کشمیر کے سوداگروں کو کشمیری سمجھ کر اہمیت دیتے ہیں۔ کسی نے سوچا ہے کہ اس سے کشمیر کے حریت پسندوں کے دل پر کیا گزرتی ہو گی؟ شرم سے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔ سمجھ نہیں آتی کہ ہماری کشمیر پالیسی کیا ہے؟ ہے بھی یا فوت ہو چکی ہے؟ وزیراعظم نے تو پچھلے سال کے آخری حصے میں یہ تک کہہ دیا تھا کہ ہم مسلح جدو جہد کی حمایت نہیں کریں گے۔ وہ بیان اور الفاظ اور ویڈیو آج بھی میری آنکھوں کے سامنے چل رہے ہیں اور میرا دل چیر رہے ہیں۔ تو یہ کل محمکۂ خارجہ کی بیان بازی کس لئے تھی؟ منافقت بند کر دینی چاہیے۔ مجھے لگتا تھا کہ مقبوضہ کشمیر کے سب کے سب لوگ پاکستان سے الحاق چاہتے ہیں اور یہ خود مختاری کا منجن صرف آزاد کشمیر کے پہاڑی قوم پرست ہی بیچتے ہیں لیکن ذاکر موسیٰ کے نظریات اور کشمیری عوام میں اس کی پذیرائی اس بات کا ثبوت ہے کہ کچھ تو غلط ہے اور بہت غلط ہے۔ جنہوں نے ٹھیک کرنا ہے وہ اتنے سالوں سے سب کچھ بگاڑتے چلے آئے ہیں۔ آج کشمیر میں آزادی پسندوں کا ایک طبقہ پاکستانی حکومت سے بد دل ہو چکا ہے۔ ایک وجہ تو پاکستانی حکمرانوں اور پالیسی سازوں کی نا اہلی اور بے غیرتی ہے اور دوسری وجہ یہ کے کہ ہم صرف نام کی اسلامی ریاست ہیں۔ قائد و اقبال نے کہا تھا کہ ہم پاکستان اس لئے بنانا چاہتے ہیں کہ ہم اسے اسلامی اصولوں کی لیبارٹری بنائیں گے یہاں اسلام کا نفاذ ہو گا۔ اسی نسبت سے سید علی گیلانی نے کہا تھا کہ ”صرف اسلام کی نسبت اور تعلق سے ہم پاکستانی ہیں پاکستان ہمارا ہے“ اور ہم نےانکے اس جملے کا آخری حصہ تو لے لیا لیکن اتنی توفیق نہ ہوئی کہ پورا بیان ہی سن لیں یا حکومت سرکاری ٹی وی چینل پر ہی چلوا دے۔ یہ ہم بھول گئے کہ پوری بات انہوں نے کیا کہی تھی۔ پاکستان میں اسلامی نظام ہے یا نہیں ہے؟ اسلام تو باطل کے سامنے ڈٹنے کو کہتا ہے۔ ہم نے تو مجاہدین تک کی مدد کرنا بہت کم کردیا ہے۔ کس حال میں جی رہے ہیں وہ؟ مجاہدین کی مٹھی بھر جماعت آٹھ لاکھ ظالم درندون کے سامنے برسرِ پیکار ہے۔ حال یہ ہے کہ کئی مجاہدین کے پاس بندوق ہی نہیں ہے۔ ایل او سی پر باڑ لگوانے دے دی اور یہاں سے وہاں جانے والوں کو بھی آپ روکتے ہیں۔ عوام کو بتانا کس کا کام تھا؟ محض کچھ عرصہ بعد "کشمیر بنے گا پاکستان" نعرہ لگا دینا ہی ہمارا فرض ہے؟ سال میں میں دو تین مرتبہ یومِ سیاہ ہی منانا ہمارا کام رہ گیا اگلے ۷۲ سال کیلئے بھی؟ علامہ محمد اقبال   نے کچھ اشعار کہے تھے:
ہے زندہ فقط وحدتِ افکار سے ملّت
وحدت ہو فنا جس سے وہ الہام بھی الحاد
مُلّا کو جو ہے ہِند میں سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد!
یہی حال آج ہمارا بھی ہے۔ ہم غلام ہیں اس کے جو ہمیں ذہنوں میں زبردستی ہمارے حکمران، سیاستدان، جرنیل اور میڈیا ڈالتے ہیں۔ ہم وہی راگ الاپنے لگتے ہیں اور حکمران و پالیسی ساز خود بیرونی طاقتوں اور اپنی خواہشات کے غلام ہیں۔ کاش ہم خود بھی حالات و واقعات اور تاریخ پر نظر رکھتے تو آج اپنا اور اپنے حکمرانوں کا گریبان پکڑ سکتے کہ ہم نے ۷۲ سال پاکستان کیساتھ کیا سلوک کیا ہے؟ آج نہیں تو روزِ محشر شہیدوں کی روحیں ہم سے سوال ضرور کریں گی۔
                                                             اسامہ اعظم - ۸ مئی ۲۰۲۰ #Kashmir #RiyazNaikoo #HeartBleeds
جو ریاض احمد نائیکو ہر دفعہ ہر پیغام میں پاکستان کا نام لیتا تھا۔ پاکستان کی محبت کا دم بھرتا تھا۔ پاکستان مخالف گروہوں اور تنظیموں کے خلاف جاتا تھا۔ پاکستان کے حق میں نعرہ لگاتا تھا۔ اس کو پاکستان نے کیا دیا؟ تعزیت کے چند بول؟ محکمۂ خارجہ کی معمول کی جملے بازی؟ اُسے بھی بھلا دیا۔ کسی نامور صحافی نے کچھ بولا نہیں، کسی حکومتی شخصیت کی زبان نہیں ہلی، اپوزیشن سے تو خیر امید رکھنا ہی بے وقوفی ہے۔ یہاں تو یہ حال ہے کہ یہ عوام سے یہ فرق نہیں ہو رہا کہ تصویروں میں موجود شخص ریاض نائیکو ہے یا تنویر احمد ملک ہے یا ڈاکٹر برہان ہے یا کون ہے۔ بغیر سوچے سمجھے تصویریں اور ویڈیوز اپلوڈ کرتے جا رہے ہیں۔ کس نے عوام میں شعور اجاگر کرنا تھا؟ کس نے عوام کو ہر دم باخبر رکھنا تھا؟ کس کی ذمہ داری تھی کہ لوگوں کو بتائے کہ کشمیر میں کون پاکستان کا اور اسلام کا خیر خواہ اور حامی ہے اور کون مخالف اور غدار ہے۔ میڈیا اور عوام تو محبوبہ مفتی اور فاروق عبداللہ اور عمر عبداللہ جیسے ٹکے ٹکے کے لوگوں اور کشمیر کے سوداگروں کو کشمیری سمجھ کر اہمیت دیتے ہیں۔ کسی نے سوچا ہے کہ اس سے کشمیر کے حریت پسندوں کے دل پر کیا گزرتی ہو گی؟ شرم سے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔ سمجھ نہیں آتی کہ ہماری کشمیر پالیسی کیا ہے؟ ہے بھی یا فوت ہو چکی ہے؟ وزیراعظم نے تو پچھلے سال کے آخری حصے میں یہ تک کہہ دیا تھا کہ ہم مسلح جدو جہد کی حمایت نہیں کریں گے۔ وہ بیان اور الفاظ اور ویڈیو آج بھی میری آنکھوں کے سامنے چل رہے ہیں اور میرا دل چیر رہے ہیں۔ تو یہ کل محمکۂ خارجہ کی بیان بازی کس لئے تھی؟ منافقت بند کر دینی چاہیے۔ مجھے لگتا تھا کہ مقبوضہ کشمیر کے سب کے سب لوگ پاکستان سے الحاق چاہتے ہیں اور یہ خود مختاری کا منجن صرف آزاد کشمیر کے پہاڑی قوم پرست ہی بیچتے ہیں لیکن ذاکر موسیٰ کے نظریات اور کشمیری عوام میں اس کی پذیرائی اس بات کا ثبوت ہے کہ کچھ تو غلط ہے اور بہت غلط ہے۔ جنہوں نے ٹھیک کرنا ہے وہ اتنے سالوں سے سب کچھ بگاڑتے چلے آئے ہیں۔ آج کشمیر میں آزادی پسندوں کا ایک طبقہ پاکستانی حکومت سے بد دل ہو چکا ہے۔ ایک وجہ تو پاکستانی حکمرانوں اور پالیسی سازوں کی نا اہلی اور بے غیرتی ہے اور دوسری وجہ یہ کے کہ ہم صرف نام کی اسلامی ریاست ہیں۔ قائد و اقبال نے کہا تھا کہ ہم پاکستان اس لئے بنانا چاہتے ہیں کہ ہم اسے اسلامی اصولوں کی لیبارٹری بنائیں گے یہاں اسلام کا نفاذ ہو گا۔ اسی نسبت سے سید علی گیلانی نے کہا تھا کہ ”صرف اسلام کی نسبت اور تعلق سے ہم پاکستانی ہیں پاکستان ہمارا ہے“ اور ہم نےانکے اس جملے کا آخری حصہ تو لے لیا لیکن اتنی توفیق نہ ہوئی کہ پورا بیان ہی سن لیں یا حکومت سرکاری ٹی وی چینل پر ہی چلوا دے۔ یہ ہم بھول گئے کہ پوری بات انہوں نے کیا کہی تھی۔ پاکستان میں اسلامی نظام ہے یا نہیں ہے؟ اسلام تو باطل کے سامنے ڈٹنے کو کہتا ہے۔ ہم نے تو مجاہدین تک کی مدد کرنا بہت کم کردیا ہے۔ کس حال میں جی رہے ہیں وہ؟ مجاہدین کی مٹھی بھر جماعت آٹھ لاکھ ظالم درندون کے سامنے برسرِ پیکار ہے۔ حال یہ ہے کہ کئی مجاہدین کے پاس بندوق ہی نہیں ہے۔ ایل او سی پر باڑ لگوانے دے دی اور یہاں سے وہاں جانے والوں کو بھی آپ روکتے ہیں۔ عوام کو بتانا کس کا کام تھا؟ محض کچھ عرصہ بعد "کشمیر بنے گا پاکستان" نعرہ لگا دینا ہی ہمارا فرض ہے؟ سال میں میں دو تین مرتبہ یومِ سیاہ ہی منانا ہمارا کام رہ گیا اگلے ۷۲ سال کیلئے بھی؟ علامہ محمد اقبال   نے کچھ اشعار کہے تھے:
ہے زندہ فقط وحدتِ افکار سے ملّت
وحدت ہو فنا جس سے وہ الہام بھی الحاد
مُلّا کو جو ہے ہِند میں سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد!
یہی حال آج ہمارا بھی ہے۔ ہم غلام ہیں اس کے جو ہمیں ذہنوں میں زبردستی ہمارے حکمران، سیاستدان، جرنیل اور میڈیا ڈالتے ہیں۔ ہم وہی راگ الاپنے لگتے ہیں اور حکمران و پالیسی ساز خود بیرونی طاقتوں اور اپنی خواہشات کے غلام ہیں۔ کاش ہم خود بھی حالات و واقعات اور تاریخ پر نظر رکھتے تو آج اپنا اور اپنے حکمرانوں کا گریبان پکڑ سکتے کہ ہم نے ۷۲ سال پاکستان کیساتھ کیا سلوک کیا ہے؟ آج نہیں تو روزِ محشر شہیدوں کی روحیں ہم سے سوال ضرور کریں گی۔
                                                             اسامہ اعظم - ۸ مئی ۲۰۲۰ #Kashmir #RiyazNaikoo #HeartBleeds
osamaazam7042

PK

New Creator