اسنے دیکھا نہیں مڑ کے جاتے ہوئے مدّتیں ہو گئی دل جلاتے ہوئے جانِ کیوں چل دیا اس طرح روٹھ کر مینے چاہا تھہ جس کو کبھی ٹوٹ کر خاب ٹوٹا وہ ہی ہاتھ سے چھوٹ کر وہ تو لے ہی گیا دل مرا لوٹ کر عشق کے ضابطہ کو نبھاتے ہوئے اسنے دیکھا نہیں مڑ کے جاتے ہوئے دور تک ہے اندھیرا میری راہ میں دل تڑپتا ہے اب بھی تیری چاہ میں وہ ملےگا کہی تو کسی گاہ میں درد ہوتا بیاں ہیں میری آہ میں لوگ ہے پوچھتے آتے جاتے ہوئے اسنے دیکھا نہیں مڑ کے جاتے ہوئے مشکلوں سے بھرا ہے یہ میرا سفر چاہے جاؤ جدھر وہ ہی آئے نظر آج پھر سے مے آیا ہوں اسکے نگر شاعری کا جو دے کے گیا تھا ہنر جگنوؤں کی طرح جگمگاتے ہوئے اسنے دیکھا نہیں مڑ کے جاتے ہوئے یہ تصور ترا اور تنہائیاں ساتھ میرے چلی تیری پرچھائیاں تیری باتوں مے لگتی تھی سچچائیاں یاد آتی رہی تیری نادانیاں اس کی یادوں سے دل کو سجاتے ہوئے اسنے دیکھا نہیں مڑ کے جاتے ہوئے آرزوں ہے مری وہ مرے ساتھ ہو ہے تمنا یہی بس ملاقات ہو پھر ستاروں کے جھرمٹ کی اک رات ہو اور ہاتھوں مے بس اک تیرا ہاتھ ہو پاس آجائیے مسکراتے ہوئے اسنے دیکھا نہیں مڑ کے جاتے ہوئے زندگی سے تیری میں چلا جاؤنگا پوچھتے ہیں وہ مجھ سے کہا جاؤنگا اپنا وعدہ وفا میں نبھا جاؤنگا تیری راہوں مے دل کو جلا جاؤنگا میرے سارے خطوں کو جلاتے ہوئے اسنے دیکھا نہیں مڑ کے جاتے ہوئے عشق میں تجھکو کوئی تو حاصل ملے یہ دعا ہے میری تجھکو منزل ملے گر ملے تجھکو کوئی تو مہمل ملے تیرے جیسا تجھے کوئی سنگدل ملے میری راتوں کی نیندیں چراتے ہوئے اسنے دیکھا نہیں مڑ کے جاتے ہوئے میرے دل اب تو اسکی لگن چھوڑ دیں یہ شہر بھی ہے اسکا چمن چھوڑ دیں اسکی یادوں کی دل سے جلن چھوڑ دیں مہفلے بھی تو اسکا جشن چھوڑ دیں جا رہا ہوں مے عابد بتاتے ہوئے اسنے دیکھا نہیں مڑ کے جاتے ہوئے #یاد