*روشنی میں لوگ اعلانِ وفاداری کریں. شمع گل ہوتے ہی سب چلنے کی تیاری کریں* *جب ہمیں بے مول ہاتھ آنے لگیں سچائیاں۔ کیا ضرورت ہے کہ خوابوں کی خریداری کریں* *یہ زمیں پھر پاؤں کی زنجیر ہوجانے کو ہے۔ وحشتیں اب کوئی فرمانِ سفر جاری کریں* *تو میسر ہے تو تجھ پر شعر کیوں لکھیں کوئی۔ تجھ سے فرصت ہو تو ہم یہ شغلِ بیکاری کریں* *عرفان صدیقی* Karma