White دل کی لکیروں پر پھر کوئی چہرہ ابھر آتا ہے بھول جاتا ہوں پر وہ نشان جاتا ہی نہیں ہے میری وفا کا امتحان لے لے کر نہیں اطمینان اس کے دل سے وہ بد گمان جاتا ہی نہیں ہے شہر شہر کر چلا ہے مجھ کو کر کر کے بدنام سچائی ہے عیاں پر یہ بہتان جاتا ہی نہیں ہے ذہن کی زنجیروں نے جھکڑ لی ہے جو سوچ باتوں کے سمندر سے یہ زندان جاتا ہی نہیں ہے گناہوں کے دلدل سے نکلوں گا کوئی تو سبب دل کی گہرائی سے یہ ویران جاتا ہی نہیں ہے ہو کوئی قرار تو ملتا دل کو بھی کچھ سکون بے چین دل سے وہ پریشان جاتا ہی نہیں ہے امیدوں کے دریا بہتے گئے آنکھوں کے خواب کوئی یاد ہے ذہن میں وہ مہمان جاتا ہی نہیں خواہشیں بے شمار دل میں بھرے بھرے ہوئے کوئی تو ہوگی پر تو یہ امکان جاتا ہی نہیں ہے وہ سلگتی ہوئی تصویر وہ ذہن کی بے ہودگی سامنے ہے بے لباس وہ عریاں جاتا ہی نہیں ہے میرے ذہن کی سوغات کیسے کیسے الفاظ راحت دل میں بسا وہ عنوان جاتا یی نہیں ہے ©Ashraf Qureshi #Sad_Status