دلِ ناداں یقیں کر لے محبت اب نہیں ہو گی قیامت آ چکی ہم پر قیامت اب نہیں ہو گی جسے اپنا بنایا تھا جو رگ رگ میں سمایا تھا بہت بےدرد نکلا وہ سو چاہت اب نہیں ہوگی مرا بے سود ہے جینا جہانِ درد میں تنہا مجھے سانسوں کی اے ہمدم ضرورت اب نہیں ہو گی مجازی عشق میں کھو کر حقیقت بھول بیٹھا تھا خدایا در گزر کرنا شکایت اب نہیں ہو گی مذاہب کے تصادم نے خدا کو تقسیم کر ڈالا کہیں مندر کہیں گرجا عبادت اب نہیں ہوگی Dil E nadaan yaqeen Kar le