غزل زبوں حالی پہ اکثر بولتا ہے مرے اندر کا اندر بولتا ہے طلاطم میں سمندر بولتا ہے کہ جب بھی وہ قلندر بولتا ہے مکینوں نے اگر چپ سادھ لی ہے زبانِ حال سے گھر بولتا ہے شوالہ کا پجاری دم بخود ہے مگر اک ایک پتھر بولتا ہے براہیموں کو اب تک سامنا ہے مقابل ان کے آذر بولتا ہے دیا مٹّی کا چھوٹا ہی سہی پر شبِ ظلمت کتر کر بولتا ہے ایوب دلبؔر #URDU GAZAL AYUB DILBER