نظروں کو جو ُجھکا کر چلتے ہیں کمال کرتے ہیں لہجے جو دھیمے رکھتے ہیں کمال کرتے ہیں اداکار تو بہت ہیں شہر میرے میں ہر طرح کے سادہ دل جو فنکاریاں چھپاتے ہیں کمال کرتے ہیں درد و الم میں آنسوؤں کا تو کوئی مول نہیں مگر پھر بھی جو مسکراتے ہیں کمال کرتے ہیں ساتھ جو مشکل ہو رستہ بھی کچھ دشوار ہو رشتے پھر بھی کمال نبھاتے ہیں کمال کرتے ہیں ُہنر آتا ہو جن کو ہر طرح زندگی جینے کا بکھرے ہوؤں کا ہاتھ تھام لیتے ہیں کمال کرتے ہیں گلہ نہ کیا کرو بے اعتنائی کا میری تشگنی کا تجھے خبر کیا جو تنہا رہتے ہیں کمال کرتے ہیں بوجھ تو سبھی پر ہوتے ہیں اپنے کاموں کے مگر اروں کا بھی جو بوجھ ُاٹھا لیتے ہیں کمال کرتے ہیں انکا مول نہیں ہرگز بھی کسی بھی جہاں میں روۓ ہوؤں کا ہسا دیتے ہیں کمال کرتے ہیں لوگ ایسے بہت کمال کے ہوتے ہیں متین ~ خفا ہوں مگر حال پوچھ لیتے ہیں کمال کرتے ہیں متین ~