روز خاموشی کے اس جنگل میں رات کی ان آہٹوں سے بات کرتے ہے زمانے کے محفلوں کی موج سے الگ گاؤں میں نئی برسات کی بات کرتے ہے ماضی کی زنجیر سے تلخ لمحوں کو لے کر مستقبل کے چھاوں سے تعارف کراتے ہے تنہائی کے نشے میں خود کو سازگار بنا کر اس جام میں مگن ہر غم ہی بھلا دیتے ہے بچے ہوئے حسرتوں کو شبنم میں تبسم لئیے خوابوں کا نام دیتے ہے وقت کی اس بے حسی میں جل کر ہر رات اپنے سخن میں تمام کر تے ہے بے خبر زندگی کے ان قصوں کو سن کے پھر لہو قلب سے بہا کر آہ بھرتے ہے ©Nazish Manzoor bathee...