تجھے پانے کی چاہت تھی خلوص دل کے ساتھ بدلے میں اہل دل کو بس بے وفائی ملی جو ملی وہ اک بار بن ک حسرتِ دل تو فقت ان کے دل میں کسی اور کی حسرت ملی اے محبوب تیرا انتظار میں کئی شامیں ڈھلی ایسا بھی کیا گناہ تھا جو یہ سزا ملی ہے یہ دنیا کا دستور اور کچھ اپنی لاپروائی ہم جس چیز کے پیچھے بھاگے وہ ہی نہ ملی نہیں ملتے مجھے الفاظ بیان کرنے کو یہ جو کچھ لکھا ہے تیری تصویر ہے ملی آخر طبیب کو بھی یہ کہہ کر رخصت کرنا پڑا اس کو بھی حسبِ توفیق رسوائی ملی میرے لب آخری دفعہ ہِلے تھے تب جب اس کی طرف ہمیں آخری ڈاک ملی تنہائی میں بیٹھے تیرے ہجر کی یادیں لیے ہمیں جو بھی سزا ملی اس بے وفا سے ملی ہے نام میرا اظہر، مطلب ہے روشن ہونا بد ہو یا بدنام یہ ہی قسمت تھی ملی (میاں اظہر ۔ شاغل) new gazal