انکار بن گیا ہے اقرار رفتہ رفتہ در میں بدل گئی ہے دیوار رفتہ رفتہ لہجہ بنا لیا ہے تلوار رفتہ رفتہ ماہین بن گئی ہے فنکار رفتہ رفتہ موسم بہار کا ہے اور شام ہے ملن کی ماحول بن گیا ہے ، اے یار رفتہ رفتہ سمجھے ہے میرے دل کی اک اک شکستہ دھڑکن تیری خموشیوں کی گفتار رفتہ رفتہ تو جانتا نہیں ہے اس خوش نسب کی وحشت کر دے گا عشق تجھ کو بےکار رفتہ رفتہ دشواریاں ہماری آسان ہوں گی ، جس دن کھینچیں گے اپنی جانب سرکار رفتہ رفتہ نیرنگیء زمانہ یہ بھی کوئی چلن ہے تیرے بدل رہے ہیں ، اطوار رفتہ رفتہ غنچے کِھلا رہی ہے کوچے بسا رہی ہے سانسوں کی بھینی بھینی مہکار رفتہ رفتہ مشکل ضرور ہے پر اتنا بھی کب ہے مشکل پہنچیں گے ہم بھی اک دن اُس پار رفتہ رفتہ اک دن یہی محبت اپنا اثر کرے گی بڑھتی رہی جو اس کی مقدار رفتہ رفتہ محفل میں آج میں نے یوں گل فشانیاں کیں پھولوں کا لگ گیا ہے ، انبار رفتہ رفتہ اِک روز چائے خانے آکر کسی بہانے کر جائے گا وہ ظالم اظہار رفتہ رفتہ Rafta Rafta