اس تک رسائی تو بس خوابوں تک ہے ورنہ حقیقت میں تو میسر پرچھائی نہ تھی اسے پا لے گے ہم یہی حسرت زندگی بھر رہی چوکھٹ بیٹھے فقیر کی صورت دیکھائی نہ دی وہ جو دنیا میں بانٹتا تھا قربت جھولی بھر کر کیوں اس کے دل میں میرے لیے محبت نہ تھی میں نے ڈال دی زندگی اس کے قدموں میں پھر بھی اسے مجھے سے دل لگی نہ تھی زبیر محمد