Nojoto: Largest Storytelling Platform

قائداعظم نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ ’’میری جیب میں کھ

قائداعظم نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ ’’میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں‘‘۔ یہ سکے جناح کے پاکستان کے زوال کا سبب بنے۔ قیام پاکستان کے بعد ان کا فرض تھا کہ وہ قائد کی پاکستان کو ان سنگین مسائل سے نجات دلانے میں مدد کریں جو کمزور ملک کو درپیش تھے۔ وہ سکے ایسا نہیں کر سکے۔ اس کے بجائے انہوں نے اقتدار یا کسی اور مقصد سے ایک دوسرے سے جھگڑا کیا، آئین/ مقننہ کو اتنا مضبوط بنانے کے لیے کچھ نہیں کیا جو اسے آمروں کی مداخلتوں سے محفوظ رکھ سکتا۔ درج تو یہ بھی ہے کہ قائد نے لیاقت علی سے ملاقات کے بعد مس فاطمہ جناح سے کہا تھا: "آپ جانتی ہیں کہ لیاقت علی خان کیوں آئے؟ وہ جاننا چاہتے ہیں کہ میری بیماری کتنی سنگین ہے اور میں کب تک رہوں گا‘‘۔ دوسری طرف، پڑوس میں نہرو نے غیر جمہوری ہاتھوں کو ان کی حدود تک محدود کرنے کے لیے تمام اقدامات اٹھائے۔ اس نے اصلاحات متعارف کروائیں تاکہ سامراجی میراث کو ختم کیا جا سکے۔ ظاہر ہے کہ اس نے سیاسی طور پر قیمت ادا کی لیکن طویل مدت کے لیے، اس نے اس بات کو یقینی بنایا کہ اس کا ملک ایک بہتر راستے پر چلنے کی کی جگہ تک آجائے۔ اب واپس آتے ہیں کہ آج کے پاکستان میں کیا ہو رہا ہے۔ عوامی مقبولیت کے مالک عمران خان نے ہمت کا مظاہرہ کیا ہے اور انتخابات میں انکے غالب اکثریت حاصل کرنے کی توقع کی جا رہی ہے لیکن انہیں اسی غیر جمہوری اور استعماری طاقت کے سامنے جھکنے پر مجبور کیا جا رہا ہے جو بالخصوص ۱۹۵۸ اور بالعموم ۱۹۴۷ سے ریاست پر حکومت یا قابو رکھتی آئی ہے۔ جبکہ یہ رہنما اس بار ’اُن‘ کے کہے پر عمل کرنے یا کم از کم انتخابات سے پہلے کوئی ڈیل کرنے کی رعایت دینے کو تیار نہیں ہیں۔ طاقت کے نشے میں چُور ٹولا اسی وجہ سے ہڑبڑا گیا ہے۔ عمران خان کو ۹ مئی ۲۰۲۳ کو فوجی دستوں نے غیر قانونی طور پر اغوا کیا اور پھر ’اُن‘ کا منصوبہ کارگر ہوا۔ اب وہ خان کو ان جرائم کی قیمت ادا کرنے پر مجبور کر رہے ہیں جو اس نے یا پاکستانی عوام نے نہیں کیـے ہیں۔ یہ اپنا حق اور حقِ رائے دہی مانگنے کی سزا ہے۔ وہ اس کے ارکان کو پارٹی چھوڑنے اور اس کے اور اس کے نصب العین کے خلاف بیانات دینے پر مجبور کرکے اس کے عزم کو توڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کیا یہ نتیجہ خیز ثابت ہوگا؟ نہیں ایسا نہیں ہوگا۔ طاقت کا یہ بے دریغ مظاہرہ لوگوں کے سامنے ’آمروں‘ کے اصل رنگ کو بے نقاب کر رہا ہے، ان لوگوں کے سامنے بھی کہ جو پہلے نہیں جانتے تھے یا وہ لوگ جو ملکی بھلائی کے لیے خاموش بیٹھے تھے یا وہ جو شہیدوں کے خون کے پیچھے جرنیلوں کی غلط کاریوں کو چھپا کر بے وقوف بنائے گئے تھے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اس قسم کی صورتحال ذہنوں میں انقلاب کو جنم دیتی ہے۔ یزیدیت کے پیروکار ذہنی جنگ نہیں جیت سکیں گے۔
جہاں تک پارٹی کے ارکان کا تعلق ہے تو ہمیں انہیں جانے دینا چاہیے۔ اگر وہ غاصبوں کے اس ردعمل کا خمیازہ اُٹھا نہیں سکتے تو اس نظام کی اصلاح میں عمران خان کی مدد کیسے کر سکیں گے؟ ہم نے پہلے ہی بہت سے ایسے لوگوں کو دیکھا ہے جو طویل عرصے تک عمران خان کے ساتھ تھے اور شعلہ انگیز تقریریں کرتے اور بیانات داغتے تھے لیکن جب خان نے اصولوں یا قانون پر قائم رہنے کی کوشش کی تو وہ بھاگ گئے اور اسے بدنام کرنے یا مخالفین کا ساتھ دینے میں عافیت جانی۔ ہمارے حالیہ ماضی نے ثابت کیا ہے کہ ان کے ایسا کرنے نے صرف خان کی تحریک کو زیادہ مقبولیت اور قبولیت ہی دی۔ ان میں سے کچھ مثالیں جاوید ہاشمی، جہانگیر ترین، عائشہ گلالئی، ریحام خان، علیم خان ہیں۔ کیا ہم نے اُن کا زوال نہیں دیکھا؟ کیا ہم نے خان کا عروج نہیں دیکھا؟
اُن کی فنا تھا میرا اُبھرتا ہوا وجود 
میں اس لئے بھی سب کے نشانے پہ آ گیا 
ہم کو مِٹانے والے کبھی دیکھ آئینہ 
تُو خود تباہیوں کے دہانے پہ آ گیا
اب جب لوگ پاکستان کے اُس حقیقی دشمن کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں جس نے پاکستان کے نجات دہندہ کا روپ دھار رکھا تھا تو اس مافیا نے عوام کو قابو کرنے کے لیے پرانے ہتھکنڈے استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔ کیا آپ نے کبھی عمران خان کو اداروں پر براہ راست حملہ کرتے دیکھا ہے؟ انہوں نے ہمیشہ کہا ہے کہ محض ایک گروہ ہے جس نے اداروں کو ہائی جیک کر کے اور انہیں ان کے اصل راستے سے ہٹا کر ملک کو تباہ کر دیا ہے۔ لوگ اس گروہ کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ اگر عمران خان اکیلے کھڑے ہوں اور ان کی وجہ سے شہرت پانے والے سب پارٹی ممبران چلے جائیں تو کیا عمران خان مزید نئے چہرے نہیں لا سکتے؟ ہاں وہ لا سکتے ہیں. ہم نوجوان اپنی صلاحیتوں کے مطابق اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ عمران خان کی جیب کے وہ کھوٹے سکے جو جا رہے ہیں، حقیقتاً ہماری بھلائی کے لیے جا رہے ہیں۔ وہ اتنے مضبوط یا ذہین ہی نہیں ہیں کہ وہ ہمارے ملک کو اُس کامیابی کی طرف لے جائیں جس کا مدت سے انتظار ہے۔ اسی طرح کے بہت سے لوگوں نے عمران خان کو ان کے گزشتہ دورِ حکومت میں باندھ کر رکھا، جب خان کی حکومت کمزور تھی، وہ اتنے ”رانگ نمبروں“ کی موجودگی میں بھی مضبوط تھا۔ کیا وہ ان کے بغیر مضبوط کھڑا نہیں رہ سکے گا؟
اگر خان میدانِ جنگ میں یہ ’’معرکہ‘‘ (بغیر فرار) ہار بھی جائے، چاہے وہ شہید ہو کر اپنی جان بھی گنوا دے، تو کیا سوچ یا نظریہ مر جائے گا؟ خان بیانیہ کی جنگ جیت چکا ہے۔
'وہ' صرف اپنے زخم چاٹ رہے ہیں اور نادانی میں پرانے ہتھکنڈے آزما رہے ہیں؛ پاکستان آج یا کل یا پرسوں اس دلدل سے نکلے گا ضرور؛ جیت ہماری ہے.
یہ وہ سوچ ہے جو مجھے اطمینان اور لکھنے کی ہمت دیتی ہے؛ کوئی ان دیکھی قوت ہے، جو یہ سب کرنے پر مجبور کرتی ہے؛ یقین کلید ہے.
(۲۶ مئی ۲۰۲۳)

©PK سیاسی صورتحال پر خیالات
۲۶ مئی ۲۰۲۳ #پاکستان
قائداعظم نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ ’’میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں‘‘۔ یہ سکے جناح کے پاکستان کے زوال کا سبب بنے۔ قیام پاکستان کے بعد ان کا فرض تھا کہ وہ قائد کی پاکستان کو ان سنگین مسائل سے نجات دلانے میں مدد کریں جو کمزور ملک کو درپیش تھے۔ وہ سکے ایسا نہیں کر سکے۔ اس کے بجائے انہوں نے اقتدار یا کسی اور مقصد سے ایک دوسرے سے جھگڑا کیا، آئین/ مقننہ کو اتنا مضبوط بنانے کے لیے کچھ نہیں کیا جو اسے آمروں کی مداخلتوں سے محفوظ رکھ سکتا۔ درج تو یہ بھی ہے کہ قائد نے لیاقت علی سے ملاقات کے بعد مس فاطمہ جناح سے کہا تھا: "آپ جانتی ہیں کہ لیاقت علی خان کیوں آئے؟ وہ جاننا چاہتے ہیں کہ میری بیماری کتنی سنگین ہے اور میں کب تک رہوں گا‘‘۔ دوسری طرف، پڑوس میں نہرو نے غیر جمہوری ہاتھوں کو ان کی حدود تک محدود کرنے کے لیے تمام اقدامات اٹھائے۔ اس نے اصلاحات متعارف کروائیں تاکہ سامراجی میراث کو ختم کیا جا سکے۔ ظاہر ہے کہ اس نے سیاسی طور پر قیمت ادا کی لیکن طویل مدت کے لیے، اس نے اس بات کو یقینی بنایا کہ اس کا ملک ایک بہتر راستے پر چلنے کی کی جگہ تک آجائے۔ اب واپس آتے ہیں کہ آج کے پاکستان میں کیا ہو رہا ہے۔ عوامی مقبولیت کے مالک عمران خان نے ہمت کا مظاہرہ کیا ہے اور انتخابات میں انکے غالب اکثریت حاصل کرنے کی توقع کی جا رہی ہے لیکن انہیں اسی غیر جمہوری اور استعماری طاقت کے سامنے جھکنے پر مجبور کیا جا رہا ہے جو بالخصوص ۱۹۵۸ اور بالعموم ۱۹۴۷ سے ریاست پر حکومت یا قابو رکھتی آئی ہے۔ جبکہ یہ رہنما اس بار ’اُن‘ کے کہے پر عمل کرنے یا کم از کم انتخابات سے پہلے کوئی ڈیل کرنے کی رعایت دینے کو تیار نہیں ہیں۔ طاقت کے نشے میں چُور ٹولا اسی وجہ سے ہڑبڑا گیا ہے۔ عمران خان کو ۹ مئی ۲۰۲۳ کو فوجی دستوں نے غیر قانونی طور پر اغوا کیا اور پھر ’اُن‘ کا منصوبہ کارگر ہوا۔ اب وہ خان کو ان جرائم کی قیمت ادا کرنے پر مجبور کر رہے ہیں جو اس نے یا پاکستانی عوام نے نہیں کیـے ہیں۔ یہ اپنا حق اور حقِ رائے دہی مانگنے کی سزا ہے۔ وہ اس کے ارکان کو پارٹی چھوڑنے اور اس کے اور اس کے نصب العین کے خلاف بیانات دینے پر مجبور کرکے اس کے عزم کو توڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کیا یہ نتیجہ خیز ثابت ہوگا؟ نہیں ایسا نہیں ہوگا۔ طاقت کا یہ بے دریغ مظاہرہ لوگوں کے سامنے ’آمروں‘ کے اصل رنگ کو بے نقاب کر رہا ہے، ان لوگوں کے سامنے بھی کہ جو پہلے نہیں جانتے تھے یا وہ لوگ جو ملکی بھلائی کے لیے خاموش بیٹھے تھے یا وہ جو شہیدوں کے خون کے پیچھے جرنیلوں کی غلط کاریوں کو چھپا کر بے وقوف بنائے گئے تھے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اس قسم کی صورتحال ذہنوں میں انقلاب کو جنم دیتی ہے۔ یزیدیت کے پیروکار ذہنی جنگ نہیں جیت سکیں گے۔
جہاں تک پارٹی کے ارکان کا تعلق ہے تو ہمیں انہیں جانے دینا چاہیے۔ اگر وہ غاصبوں کے اس ردعمل کا خمیازہ اُٹھا نہیں سکتے تو اس نظام کی اصلاح میں عمران خان کی مدد کیسے کر سکیں گے؟ ہم نے پہلے ہی بہت سے ایسے لوگوں کو دیکھا ہے جو طویل عرصے تک عمران خان کے ساتھ تھے اور شعلہ انگیز تقریریں کرتے اور بیانات داغتے تھے لیکن جب خان نے اصولوں یا قانون پر قائم رہنے کی کوشش کی تو وہ بھاگ گئے اور اسے بدنام کرنے یا مخالفین کا ساتھ دینے میں عافیت جانی۔ ہمارے حالیہ ماضی نے ثابت کیا ہے کہ ان کے ایسا کرنے نے صرف خان کی تحریک کو زیادہ مقبولیت اور قبولیت ہی دی۔ ان میں سے کچھ مثالیں جاوید ہاشمی، جہانگیر ترین، عائشہ گلالئی، ریحام خان، علیم خان ہیں۔ کیا ہم نے اُن کا زوال نہیں دیکھا؟ کیا ہم نے خان کا عروج نہیں دیکھا؟
اُن کی فنا تھا میرا اُبھرتا ہوا وجود 
میں اس لئے بھی سب کے نشانے پہ آ گیا 
ہم کو مِٹانے والے کبھی دیکھ آئینہ 
تُو خود تباہیوں کے دہانے پہ آ گیا
اب جب لوگ پاکستان کے اُس حقیقی دشمن کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں جس نے پاکستان کے نجات دہندہ کا روپ دھار رکھا تھا تو اس مافیا نے عوام کو قابو کرنے کے لیے پرانے ہتھکنڈے استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔ کیا آپ نے کبھی عمران خان کو اداروں پر براہ راست حملہ کرتے دیکھا ہے؟ انہوں نے ہمیشہ کہا ہے کہ محض ایک گروہ ہے جس نے اداروں کو ہائی جیک کر کے اور انہیں ان کے اصل راستے سے ہٹا کر ملک کو تباہ کر دیا ہے۔ لوگ اس گروہ کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ اگر عمران خان اکیلے کھڑے ہوں اور ان کی وجہ سے شہرت پانے والے سب پارٹی ممبران چلے جائیں تو کیا عمران خان مزید نئے چہرے نہیں لا سکتے؟ ہاں وہ لا سکتے ہیں. ہم نوجوان اپنی صلاحیتوں کے مطابق اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ عمران خان کی جیب کے وہ کھوٹے سکے جو جا رہے ہیں، حقیقتاً ہماری بھلائی کے لیے جا رہے ہیں۔ وہ اتنے مضبوط یا ذہین ہی نہیں ہیں کہ وہ ہمارے ملک کو اُس کامیابی کی طرف لے جائیں جس کا مدت سے انتظار ہے۔ اسی طرح کے بہت سے لوگوں نے عمران خان کو ان کے گزشتہ دورِ حکومت میں باندھ کر رکھا، جب خان کی حکومت کمزور تھی، وہ اتنے ”رانگ نمبروں“ کی موجودگی میں بھی مضبوط تھا۔ کیا وہ ان کے بغیر مضبوط کھڑا نہیں رہ سکے گا؟
اگر خان میدانِ جنگ میں یہ ’’معرکہ‘‘ (بغیر فرار) ہار بھی جائے، چاہے وہ شہید ہو کر اپنی جان بھی گنوا دے، تو کیا سوچ یا نظریہ مر جائے گا؟ خان بیانیہ کی جنگ جیت چکا ہے۔
'وہ' صرف اپنے زخم چاٹ رہے ہیں اور نادانی میں پرانے ہتھکنڈے آزما رہے ہیں؛ پاکستان آج یا کل یا پرسوں اس دلدل سے نکلے گا ضرور؛ جیت ہماری ہے.
یہ وہ سوچ ہے جو مجھے اطمینان اور لکھنے کی ہمت دیتی ہے؛ کوئی ان دیکھی قوت ہے، جو یہ سب کرنے پر مجبور کرتی ہے؛ یقین کلید ہے.
(۲۶ مئی ۲۰۲۳)

©PK سیاسی صورتحال پر خیالات
۲۶ مئی ۲۰۲۳ #پاکستان
osamaazam7042

PK

New Creator

سیاسی صورتحال پر خیالات ۲۶ مئی ۲۰۲۳ #پاکستان