ہنسی آئے تو ہو کچھ کم اداسی دیارِ جاں میں ہے پیہم اداسی یہ کیا حالت بنا رکھی ہے توٗ نے سدا رنجیدگی، ہر دم اداسی ستایا ہے بہت توٗ نے کسی کو نہیں چھوڑیں گے تجھ کو ہم اداسی کبھی تو چھیڑنا ہو بار آور کبھی تو مجھ سے ہو برہم اداسی ہنسیں کس طرح آخر کھکھلا کر خوشی کے ساتھ ہے مدغم اداسی ہماری مُسکراہٹ سے نہ ٹکرا کہاں ہے تجھ میں اتنا دم اداسی دروٗں ہر آن خالی پن ہے راغبؔ بروٗں دیوار و در پر غم، اداسی افتخار راغبؔ دوحہ قطر Soumya Jain