Nojoto: Largest Storytelling Platform

" سلام آخر " " گھبرائے گی زینب '' یہ بات بہت کم

" سلام آخر "

" گھبرائے گی زینب ''

یہ بات بہت کم لوگوں کے علم میں ہے کہ شہرہ آفاق مرثیہ ''گھبرائے گی زینب'' ایک ہندو شاعر منشی چنوں لال دلگیر نے لکھا ہے۔ منشی چنوں لال دلگیر میر انیس سے بھی پہلے چار سو سترہ مرثیے لکھ چکے ہیں۔ جب مرثیے کہنا شروع کیا تو اپنی غزلوں کا دیوان ''گومتی'' لکھنؤ کے دریا میں بہا دیا۔ ان کے لکھے ہوئے مرثیوں کی سات جلدیں ہیں۔ تاریخ میں یہ بات بھی موجود ہے کہ منشی چنو لال مشہور شاعر ناسخ کے شاگرد تھے اور مرزا فصیح اور میر خالق کے ہم عصر تھے۔ شاعر مصحفی نے ان کی تعریف میں یہ بات بھی بیان کی ہے کہ چنو لال کا تخلص ''ترب'' تھا جبکہ حقیقت حال یہ ہے کہ چنو لال نے ترب کا تخلص صرف اس وقت تک استعمال کیا جب تک وہ غزلیں کہتے رہے۔ مرثیہ لکھتے ہوئے انہوں نے ہمیشہ ''دلگیر'' کا تخلص استعمال کیا۔
لکھنو میں یہ کلام ھمیشہ پڑھا جاتا تھا لیکن پچاس کی دھائی میں مرحُوم ناصر جہاں نے اِس کلام کو مختلف طرز سے پڑھ کر اِسے ھمیشہ کے لیے مجلسِ شامِ غریباں سے منسُوب کر دیا۔
”سلامِ آخر“
گھبرائے گی زینب گھبرائے گی زینب
بھیا !! تمہیں گھر جا کے کہاں پائے گی زینب؟
گھبرائے گی زینب
کیسا یہ بَھرا گھر ھُوا برباد الہی، کیا آئی تباھی
اب اِس کو نہ آباد، کبھی پائے گی زینب
گھبرائے گی زینب
گھر جاکے کیسے دیکھے گی، قاسم ھے، نہ عباس
اکبر سے بھی ھے آس، اپنے علی اصغر کو، کہاں پائے گی زینب؟
گھبرائے گی زینب
پُوچھیں گے جو سب لوگ کہ بازو پہ ھُوا کیا؟ یہ نیل ھے کیسا؟
کس کس کو نشاں رَسی کے، دِکھلائے گی زینب؟
گھبرائے گی زینب
پَھٹ جائے گا، بس دیکھتے ھی گھر کو کلیجہ، یاد آؤ گئے بھیا
دِل ڈُھونڈے گا تم کو تو، کہاں پائے گی زینب؟
گھبرائے گی زینب
بے پردہ ھُوئی، قید بھی، ھر ظلم اٹھایا اور موت نہ آئی
کیا جانیے، کیا کیا ابھی اور دُکھ پائے گی زینب
گھبرائے گی زینب.
”چھنو لال دلگیر“
....
بشکریہ روزنامہ انقلاب ۔ ممبئ

©Kausar Raza
  #GhabrayegiZainab