زبان تو ہے مگر چل نہیں سکتا ہلنا تو ہوگا پر ہل نہیں سکتا میں بہت کچھ کرتا ، بول نہیں سکتا زندگی اپنی بتاتا ، اعتباری بتا نہیں سکتا میں بہت کچھ کرتا مگر کر نہیں سکتا زیرِ استعمال تو تھا پر بول نہیں پایا میں سمجھانے نکلتا ، تجھ کو سمجھ نہیں آتا میں کارواںِ سفر کرتا مگر کر نہیں سکتا میں اس بھیڑ میں کچھ کہہ گیا ہوتا مگر ہم سفروں سے کہہ نہیں سکتا نہ سمجھے گا کوئی کہ میں نہیں سکتا لوگ بہت کچھ کرتے ہیں ، میں کر نہیں سکتا میں غم بتانے بیٹھوں ، تم سن نہیں پاؤگے میں کچھ اور کہہ دوں پر کہہ نہیں سکتا مگر اے نازّ فقط کر بہت سکتا مگر کر نہیں سکتا فقط بہت کچھ کرتا مگر کر نہیں سکتا ۔۔۔۔