Nojoto: Largest Storytelling Platform

عنوان: بغیر تصدیق کی خبر تحریر: نعمان خان ایسے ہی

عنوان: بغیر تصدیق کی خبر
تحریر: نعمان خان

ایسے ہی گھر والوں کے ساتھ بیٹھے بیٹھے ہمارے ایک عزیز کے انتقال کی اطلاع آئی جو ان کے اپنے گھر والوں نے دی، اور اسکے پندرہ بیس منٹ میں اسکی تردید کی خبر آئی وہ بھی انکے ہی بیٹے کی طرف سے۔ ان پندرہ سے بیس منٹ کے درمیان گھر میں صفِ ماتم بھی بچھنا شروع ہو گیا، اور باقی کے عزیز و اقارب اور دوستوں کو بھی اطلاع ارسال ہو چکی تھی۔
بعد میں آنے والی اطلاع کی جب وجہ دریافت کی گئی تو پتا یہ چلا کہ پہلی خبر جو انتقال کی تھی وہ بغیر کسی تصدیق کے دی گئی، اس وقت ان کے والد صاحب آئی۔سی۔یو میں تھے اور ماشاءاللہ سے اللّٰہ سبحان تعالیٰ نے انکی زندگی خیر سے رکھی ہوئی تھی۔ انہوں نے بغیر ڈاکٹر کی تصدیق کے گھبراہٹ میں یہ خبر دے دی اور مزید یہ کہ ہمیں تاکید کی کہ ہم گھر پر جا کر انکی والدہ کو دیکھ لیں اور باقی کہ انتظامی امور بھی سنبھال لیں۔
اس واقعے کے کچھ لمحوں بعد انکی طرف سے تو معذرت بھی آگئی اور تردید بھی ہوگئی، لیکن یہ پندرہ سے بیس منٹ کے دورانیہ نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور سوچنے پر مجبور کردیا کہ ہم کیسے عام زندگی میں بھی خبریں ادھر سے اُدھر پھیلا دیتے ہیں بغیر کسی سمجھ بوجھ کے کہ اسکا اثر کیا ہوگا؟ کیا اسکا اثر کسی کی زندگی پر بھی پڑ سکتا ہے؟ اس جیسے سوالوں کو سوچے سمجھے بغیر ہم اپنی دھن میں مگن رہتے ہیں۔
میں ہمیشہ سے مذاق میں بھی غلط بات اور خبر دینے کے حق میں نہیں ہوں اور سمجھتا ہوں کہ اس طرح کی کوئی بھی بات کرنا بہت ہی غیر اخلاقی اور غیر مناسب فعل ہے۔ مگر ہمارے معاشرے میں یہ ایک بڑھتی ہوئی بیماری اور ناسور کی حیثیت اختیار کر چکا ہے اور ہمارا معاشرہ اسکو گھٹیا سے جملوں میں سمیٹنے کی کوشش کرتا ہے جیسے، اوہو مجھے تو نہیں پتہ تھا، فلاں نے بتایا تھا تو میں نے ایسے ہی کہ دیا، یا میں نے سوچا کہ ایسا ہی ہوا ہوگا۔ 
یہ کہنے کو تو زبان پر ہلکی باتیں ہیں لیکن حقیقتاً بےحد خطرناک نتائج مرتب کرتیں ہیں۔ انکی روک تھام ہمارا اخلاقی اور معاشرتی فرض یے۔
 میرے نزدیک اگر ہم اپنی اولادوں کی تربیت کے دوران صرف ایک بات ان کو ذہن نشین کروائیں کہ کوئی بھی خبر یا بات جب تک تصدیق نہ ہو جائے آگے نہیں بڑھائیں اور جب تک اسکے ٹھوس شواہد نہ مل جائیں تب تک اگر رک سکتے ہوں تو رک جائیں۔ انہیں اس بات کی اہمیت بتائیں کہ اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو اسکا اثر معاشرے پر اور اردگرد کے ماحول پر کیا پڑے گا۔ 
بغیر تصدیق بات کرنے کے بہت سے نقصانات اور اثرات ہو سکتے ہیں لیکن ایک ایسا نقصان جس پر میں روشنی ڈالنا چاہوں گا، جو بہت سی اخلاقی بیماریوں کی جڑ ہے وہ "بدگمانی" ہے۔
آپ لوگوں میں بنا تصدیق خبر کی وجہ سے بدگمانی کا باعث بنتے ہیں جو بذاتِ خود ایک گناہ ہے۔ آپ کی ایک غلط خبر کسی کی بدنامی کا اس حد تک باعث بن سکتی ہے کہ اسکا مستقبل ہمیشہ کیلئے تاریک ہو سکتا ہے۔ اس شخص کی نجی زندگی میں اسکے اثرات آسکتے ہیں، ایک چھوٹی سی بنا تصدیق کی بات اسکی نوکری، شادی، خاندان میں رسوائی کا سبب بن سکتی ہے۔ مزید یہ کہ، یہ رشتوں میں کمزوری کا باعث بنتی ہے، اور ایک بغیر تصدیق کی خبر لڑائی جھگڑے کا سبب ہے۔ اور خبر کی تصدیق ہونے پر اگر وہ جھوٹی نکلتی ہے تو آپ کی اپنی شخصیت داغدار ہو جاتی ہے اور آپ معاشرے میں اپنا مقام کھو سکتے ہیں۔
میں بس اپنی بات کا اختتام اس نصیحت اور التجا پر کروں گا کہ خدارا اس چھوٹی سی بات پر توجہ دیں یہ چھوٹی سی بات ایسا بگاڑ پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے کہ نسلیں اور خاندان تباہ ہو سکتے ہیں۔ اولادوں کو لازماً اس بات کو بتائیں، سکھائیں اور ان سے باقاعدہ پوچھیں کہ کوئی بھی خبر ان کو کیسے ملی، کس نے بتائی، اور غلط ہونے کی صورت میں انکی پیار و محبت سے رہنمائی فرمائیں۔

 اپنا بہت خیال رکھیں اور معاشرے کو بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔

©Noman Khan #ZulmKabTak
عنوان: بغیر تصدیق کی خبر
تحریر: نعمان خان

ایسے ہی گھر والوں کے ساتھ بیٹھے بیٹھے ہمارے ایک عزیز کے انتقال کی اطلاع آئی جو ان کے اپنے گھر والوں نے دی، اور اسکے پندرہ بیس منٹ میں اسکی تردید کی خبر آئی وہ بھی انکے ہی بیٹے کی طرف سے۔ ان پندرہ سے بیس منٹ کے درمیان گھر میں صفِ ماتم بھی بچھنا شروع ہو گیا، اور باقی کے عزیز و اقارب اور دوستوں کو بھی اطلاع ارسال ہو چکی تھی۔
بعد میں آنے والی اطلاع کی جب وجہ دریافت کی گئی تو پتا یہ چلا کہ پہلی خبر جو انتقال کی تھی وہ بغیر کسی تصدیق کے دی گئی، اس وقت ان کے والد صاحب آئی۔سی۔یو میں تھے اور ماشاءاللہ سے اللّٰہ سبحان تعالیٰ نے انکی زندگی خیر سے رکھی ہوئی تھی۔ انہوں نے بغیر ڈاکٹر کی تصدیق کے گھبراہٹ میں یہ خبر دے دی اور مزید یہ کہ ہمیں تاکید کی کہ ہم گھر پر جا کر انکی والدہ کو دیکھ لیں اور باقی کہ انتظامی امور بھی سنبھال لیں۔
اس واقعے کے کچھ لمحوں بعد انکی طرف سے تو معذرت بھی آگئی اور تردید بھی ہوگئی، لیکن یہ پندرہ سے بیس منٹ کے دورانیہ نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور سوچنے پر مجبور کردیا کہ ہم کیسے عام زندگی میں بھی خبریں ادھر سے اُدھر پھیلا دیتے ہیں بغیر کسی سمجھ بوجھ کے کہ اسکا اثر کیا ہوگا؟ کیا اسکا اثر کسی کی زندگی پر بھی پڑ سکتا ہے؟ اس جیسے سوالوں کو سوچے سمجھے بغیر ہم اپنی دھن میں مگن رہتے ہیں۔
میں ہمیشہ سے مذاق میں بھی غلط بات اور خبر دینے کے حق میں نہیں ہوں اور سمجھتا ہوں کہ اس طرح کی کوئی بھی بات کرنا بہت ہی غیر اخلاقی اور غیر مناسب فعل ہے۔ مگر ہمارے معاشرے میں یہ ایک بڑھتی ہوئی بیماری اور ناسور کی حیثیت اختیار کر چکا ہے اور ہمارا معاشرہ اسکو گھٹیا سے جملوں میں سمیٹنے کی کوشش کرتا ہے جیسے، اوہو مجھے تو نہیں پتہ تھا، فلاں نے بتایا تھا تو میں نے ایسے ہی کہ دیا، یا میں نے سوچا کہ ایسا ہی ہوا ہوگا۔ 
یہ کہنے کو تو زبان پر ہلکی باتیں ہیں لیکن حقیقتاً بےحد خطرناک نتائج مرتب کرتیں ہیں۔ انکی روک تھام ہمارا اخلاقی اور معاشرتی فرض یے۔
 میرے نزدیک اگر ہم اپنی اولادوں کی تربیت کے دوران صرف ایک بات ان کو ذہن نشین کروائیں کہ کوئی بھی خبر یا بات جب تک تصدیق نہ ہو جائے آگے نہیں بڑھائیں اور جب تک اسکے ٹھوس شواہد نہ مل جائیں تب تک اگر رک سکتے ہوں تو رک جائیں۔ انہیں اس بات کی اہمیت بتائیں کہ اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو اسکا اثر معاشرے پر اور اردگرد کے ماحول پر کیا پڑے گا۔ 
بغیر تصدیق بات کرنے کے بہت سے نقصانات اور اثرات ہو سکتے ہیں لیکن ایک ایسا نقصان جس پر میں روشنی ڈالنا چاہوں گا، جو بہت سی اخلاقی بیماریوں کی جڑ ہے وہ "بدگمانی" ہے۔
آپ لوگوں میں بنا تصدیق خبر کی وجہ سے بدگمانی کا باعث بنتے ہیں جو بذاتِ خود ایک گناہ ہے۔ آپ کی ایک غلط خبر کسی کی بدنامی کا اس حد تک باعث بن سکتی ہے کہ اسکا مستقبل ہمیشہ کیلئے تاریک ہو سکتا ہے۔ اس شخص کی نجی زندگی میں اسکے اثرات آسکتے ہیں، ایک چھوٹی سی بنا تصدیق کی بات اسکی نوکری، شادی، خاندان میں رسوائی کا سبب بن سکتی ہے۔ مزید یہ کہ، یہ رشتوں میں کمزوری کا باعث بنتی ہے، اور ایک بغیر تصدیق کی خبر لڑائی جھگڑے کا سبب ہے۔ اور خبر کی تصدیق ہونے پر اگر وہ جھوٹی نکلتی ہے تو آپ کی اپنی شخصیت داغدار ہو جاتی ہے اور آپ معاشرے میں اپنا مقام کھو سکتے ہیں۔
میں بس اپنی بات کا اختتام اس نصیحت اور التجا پر کروں گا کہ خدارا اس چھوٹی سی بات پر توجہ دیں یہ چھوٹی سی بات ایسا بگاڑ پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے کہ نسلیں اور خاندان تباہ ہو سکتے ہیں۔ اولادوں کو لازماً اس بات کو بتائیں، سکھائیں اور ان سے باقاعدہ پوچھیں کہ کوئی بھی خبر ان کو کیسے ملی، کس نے بتائی، اور غلط ہونے کی صورت میں انکی پیار و محبت سے رہنمائی فرمائیں۔

 اپنا بہت خیال رکھیں اور معاشرے کو بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔

©Noman Khan #ZulmKabTak
nomankhan3405

Noman Khan

New Creator