بہت دن ہو گئے ہیں جاناں میں نے خط تجھ کو نہیں بھیجا قلم بھی تھک گیا میرا میرے ہاتھوں کی لرزش سے سیاہی روٹھ بیٹھی ہے میرے کاغذ کے صفحوں پر تیری خوشبو نہیں ٹھہری بہت دن ہو گئے جاناں تمہیں سنا نہیں میں نے، تیری آنکھوں میں پڑھی تھی جو وہ بے ترتیب سی تحریر میں بھول سکتی ہوں کیا؟ شاید،مگر اب یوں لگتا ہے کہ جیسے تیری آنکھوں میں جو رنگِ بے خودی اترا تھا کبھی وہ مدھم سا پڑنے لگا ہے اب، تیری باتوں کی خوشبو ہوا میں کم بکھرتی ہے اور وہ تیرے قہقہوں کی گونج سکوتِ شام بن گئی ہے اب وہ تتلی جس کے پَر تُو نے کبھی کاغذ پر چسپاں کئے تھے نہ؟ وہ زندہ ہے شاید ۔۔۔۔۔ مگر بے رنگ لگتی ہے اب، وہ لب کبھی جو "ب"پر ٹھہرکر زرا سا کانپ جاتے تھے وہ سرگوشی میں تیرے "و" کی ہلکی گونج کہیں کھوئی پڑی ہے اب بہت دن ہو گئے جاناں تیری آواز نہیں سنی میں نے۔۔۔! تیری دہلیز پر رکھے وہ لمحے زرد لگتے ہیں اب کسی پل کا تقاضا ہے کہ شاید تُو پلٹ آئے مگر میں جانتی ہوں نہ کسی لمحے کی خواہش میں زمانے بیت جاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔! ✍️ مہوش ملک ©Mehwish Malik #Thinking