Nojoto: Largest Storytelling Platform

 نارنگ صاحب نے اردو زبان کے وجود میں آنے کے تعلق س

 نارنگ صاحب نے اردو زبان کے وجود میں آنے کے تعلق سے جو وضاحت کی ہے وہ بہت ہی اہم ہے اور اس کی ہندوستانیت پردال ہے۔ 

معاملہ بازار کا ہو کہ دربار کا اردو کے نقوش اور اس کے خدو خال ابتدا سے ہی خال خال، خام حالت میں موجود ضرور تھے۔ آریاؤں کی آمد سے لے کر ان کے بسنے تک، ترکوں کے حملے اور مغلوں کی اندرونِ ہند پیش قدمی نے اس کی پرورش و پرداخت کے لیے ایسی فضا سازی کی کہ اس کے اثرات روز افزوں مرتب ہوتے گئے۔لشکری زبان ہونے کی وجہ سے درباروں تک رسائی حاصل کرنے میں یہ ناکام رہی۔البتہ عوام الناس نے اور مغل فوج کی گود میں پروان چڑھنے کے اسے اچھے مواقع نصیب ہوئے۔اسی دوران صوفیائے کرام نے بھی آسان فہم زبان میں اپنے مقاصد و پیغامات کی ترسیل کے لیے اسی عوامی زبان کو وسیلہ بنایا جو اردو کی ہی ابتدائی شکل میں موجود تھی۔

صوفیائے کرام نے عوام میں رائج زبان کے استعمال کے ذریعے سبق دینے کی کوششیں کیں۔اور اس زبان کو استحکام بخشنے میں کامیاب بھی ہوئے۔ البتہ یہ سب اردو زبان کے ایام طفلی کے عناصر ہیں۔ اردو کے اسی پودے نے دیکھتے ہی دیکھتے تناور اور چھتنار درخت کی شکل اختیار کرلی۔ اس کے ارتقائی سفر میں مذکورہ بالا عناصرِ لازمی نے راہیں فراہم کیں اور اسے بحیثیت ایک صحت مند زبان کے طور پر استحکام بخشا۔اس کے بعد کئی اور عوامل اس کی ترقی کے پس پشت شامل رہے جن کے طفیل اردو کو نہ صرف بے پناہ فروغ حاصل ہوا بلکہ اس نے اپنا وہ مقام بھی بنا لیا کہ غیر اردو داں حضرات بھی اس کے اسیر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔اس جہت میں اس زمانے کی روداد، محفل سخن اور داستانوں کو غیرمعمولی اہمیت حاصل ہے۔بعد کو بیرونی ممالک سے آنے والے سیاح اور ان کی ہندوستانی کلچر میں دلچسپی نے اردو کے فروغ کے امکانات وسیع ترکردیے۔

تعلیم و تدریس کے ساتھ ساتھ شعراء کی انجمنیں اس کی اشاعت میں معاون رہیں۔ پھر وہ دور بھی آیا جب اردو نے درباروں اور ایوانوں تک رسائی حاصل کی۔ ایسا اس لیے ہوا تھا کہ انگریزوں نے ملک پر تسلط قائم کر کے فارسی کی گردن ماردی تھی۔انھیں اس بات کا فطری طورپراحساس تھا کہ ملک پر حکمرانی اسی وقت ممکن ہے جب کہ محکوم ملک کی زبان، تہذیب او رمعاشرت سے واقفیت ہو۔لہٰذا انھوں نے اس سمت سنجیدگی سے عملی اقدامات اٹھائے جس سے مفادات کے ساتھ ساتھ اردو زبان و ادب کو بھی فائدہ ہوا۔اس فائدے کی نشان دہی فورٹ ولیم کالج کے قیام سے ہوتی ہے۔ انگریزوں کی تعلیم وتدریس کے ساتھ یہاں اردو نثر، دوسری زبانوں کے داستانوں سے اس قدر مالا مال ہوگئی کہ اس کا اپنا دامن وسیع ہوتا چلا گیا۔چونکہ اس کالج کو منصوبہ بند طریقے سے سیاسی مقاصد کی تکمیل کی خاطر قائم کیا گیا تھا لہٰذا مقصد کی تکمیل پر اسے بند بھی کردیا گیا مگر اسی قلیل مدت میں یہاں ایسی ایسی تالیفات و تصنیفات منصہئ شہود پر آئیں جن کی مثالیں نہیں ملتیں۔

©Mr. Eram #City 3
 نارنگ صاحب نے اردو زبان کے وجود میں آنے کے تعلق سے جو وضاحت کی ہے وہ بہت ہی اہم ہے اور اس کی ہندوستانیت پردال ہے۔ 

معاملہ بازار کا ہو کہ دربار کا اردو کے نقوش اور اس کے خدو خال ابتدا سے ہی خال خال، خام حالت میں موجود ضرور تھے۔ آریاؤں کی آمد سے لے کر ان کے بسنے تک، ترکوں کے حملے اور مغلوں کی اندرونِ ہند پیش قدمی نے اس کی پرورش و پرداخت کے لیے ایسی فضا سازی کی کہ اس کے اثرات روز افزوں مرتب ہوتے گئے۔لشکری زبان ہونے کی وجہ سے درباروں تک رسائی حاصل کرنے میں یہ ناکام رہی۔البتہ عوام الناس نے اور مغل فوج کی گود میں پروان چڑھنے کے اسے اچھے مواقع نصیب ہوئے۔اسی دوران صوفیائے کرام نے بھی آسان فہم زبان میں اپنے مقاصد و پیغامات کی ترسیل کے لیے اسی عوامی زبان کو وسیلہ بنایا جو اردو کی ہی ابتدائی شکل میں موجود تھی۔

صوفیائے کرام نے عوام میں رائج زبان کے استعمال کے ذریعے سبق دینے کی کوششیں کیں۔اور اس زبان کو استحکام بخشنے میں کامیاب بھی ہوئے۔ البتہ یہ سب اردو زبان کے ایام طفلی کے عناصر ہیں۔ اردو کے اسی پودے نے دیکھتے ہی دیکھتے تناور اور چھتنار درخت کی شکل اختیار کرلی۔ اس کے ارتقائی سفر میں مذکورہ بالا عناصرِ لازمی نے راہیں فراہم کیں اور اسے بحیثیت ایک صحت مند زبان کے طور پر استحکام بخشا۔اس کے بعد کئی اور عوامل اس کی ترقی کے پس پشت شامل رہے جن کے طفیل اردو کو نہ صرف بے پناہ فروغ حاصل ہوا بلکہ اس نے اپنا وہ مقام بھی بنا لیا کہ غیر اردو داں حضرات بھی اس کے اسیر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔اس جہت میں اس زمانے کی روداد، محفل سخن اور داستانوں کو غیرمعمولی اہمیت حاصل ہے۔بعد کو بیرونی ممالک سے آنے والے سیاح اور ان کی ہندوستانی کلچر میں دلچسپی نے اردو کے فروغ کے امکانات وسیع ترکردیے۔

تعلیم و تدریس کے ساتھ ساتھ شعراء کی انجمنیں اس کی اشاعت میں معاون رہیں۔ پھر وہ دور بھی آیا جب اردو نے درباروں اور ایوانوں تک رسائی حاصل کی۔ ایسا اس لیے ہوا تھا کہ انگریزوں نے ملک پر تسلط قائم کر کے فارسی کی گردن ماردی تھی۔انھیں اس بات کا فطری طورپراحساس تھا کہ ملک پر حکمرانی اسی وقت ممکن ہے جب کہ محکوم ملک کی زبان، تہذیب او رمعاشرت سے واقفیت ہو۔لہٰذا انھوں نے اس سمت سنجیدگی سے عملی اقدامات اٹھائے جس سے مفادات کے ساتھ ساتھ اردو زبان و ادب کو بھی فائدہ ہوا۔اس فائدے کی نشان دہی فورٹ ولیم کالج کے قیام سے ہوتی ہے۔ انگریزوں کی تعلیم وتدریس کے ساتھ یہاں اردو نثر، دوسری زبانوں کے داستانوں سے اس قدر مالا مال ہوگئی کہ اس کا اپنا دامن وسیع ہوتا چلا گیا۔چونکہ اس کالج کو منصوبہ بند طریقے سے سیاسی مقاصد کی تکمیل کی خاطر قائم کیا گیا تھا لہٰذا مقصد کی تکمیل پر اسے بند بھی کردیا گیا مگر اسی قلیل مدت میں یہاں ایسی ایسی تالیفات و تصنیفات منصہئ شہود پر آئیں جن کی مثالیں نہیں ملتیں۔

©Mr. Eram #City 3
mreram8290829648872

Mr. Eram

New Creator
streak icon82