بتانا تھا کہ تیری یاد اب نہیں آتی ہمارے گاؤں یہ برسات اب نہیں آتی کئی راتیں ہوئی برباد میری عشق میں تیرے کٹے جو ہجر میں تیرے وہ رات اب نہیں آتی کبھی ایک وقت تھا سورج کے جاتے شام ہوتی تھی چلا جاتا ہے سورج مگر وہ شام اب نہیں آتی تیرے جاتے ہی میرے ساتھ بس تنہائی ہوتی تھی مگر تنہائی بھی میرے ساتھ اب نہیں آتی کبھی مجھ کو یہ لگتا تھا مجھے تم نے پکارا ہے میرے کانوں میں تیری یہ آواز اب نہیں آتی کبھی ہر بات میں میری ذکر تیرا ہی ہوتا تھا کبھی بھی تذکرہ ہو تیری بات اب نہیں آتی بتانا تھا کہ تیری یاد اب نہیں آتی محمد گلریز ©Muhammad Gulrez #Gulrez