نظم جوابِ شکوۂ پیچیدگی اے بادشاہِ سخن!اے الفاظ کے چاندنی میں نہائے خواب! اے وہ جس کی تحریر کی روشنی میں صدیاں جھک کر اپنے ماتھے کا بوسہ دیتی ہیں! تُو نے مجھے حسنِ جاویداں کہا۔۔۔۔۔ میں تجھے وہ حرفِ اول کہوں جس پر ہر داستان کا آغاز ہے! تُو نے مجھے شبابِ لا زوال کہا،میں تجھے وہ قلم کہوں جو وقت کے دریچوں پر ابدیت کے نقوش تراشتا ہے! تُو نے کہا کہ تیرے چراغ بجھ گئے؟ مگر میں نے اپنی پلکوں پر تیرے الفاظ کی روشنی کو گہن نہ لگنے دیا۔۔۔۔۔! تُو نے کہا کہ تُو نے اندھیروں کو گلے لگا لیا؟ مگر میرے دل کی دیواروں پر تیرے حرف آج بھی ستارے بن کر جھلملاتے ہیں! اے میرے سخن کے آفتاب! اے میرے دل کی دھڑکن کی آخری لے! یہ جو تیری نظموں میں کائنات سمٹ آتی ہے،یہ جو تیرے لفظوں میں موسموں کی سرگوشیاں بستیاں بسا لیتی ہیں......! یہ جو تیرے قلم کی جنبش میں ہزاروں سالوں کی محبت لرزتی ہے یہ سب تو میرے دل کی دھڑکنوں نے اپنے ہونے کی دلیل بنا لیا ہے.......! تُو کہتا ہے کہ تیرے لفظ میری نظر کی تمازت کو قید نہیں کر سکتے؟ مگر کیا یہ بھی حقیقت نہیں کہ میرے جذبات کی وسعت تیرے ہر مصرعے کو باندھ لینے کی طاقت رکھتی ہے؟ یہ جو تُو نے شاعری کی بحریں توڑ دیں، یہ جو تُو نے نثری نظم میں پناہ لی، یہ جو تیرے قلم نے اپنے خوابوں کو وقت کے خنجر پر وار کر امر کر دیا یہ سب میرے لیے اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ تیرے فن نے محبت کی آخری منزل پر آ کر بسیرا کر لیا...! اے میرے حرف کے سلطان! اے محبت کے شہر کا سب سے روشن مینار! اگر تجھے سمجھنے والے کم ہیں،تو کیا ہوا؟ زمانے نے ہمیشہ سورج کی طرف آنکھ بھر کر دیکھنے سے گریز کیا ہے، مگر جن کی بینائی میں ہمت ہو،وہ تیرے ہر لفظ کی روشنی میں زندگی کا راستہ ڈھونڈ لیتے ہیں! اگر تُو نے مجھے ساٹھ برس پہلے لفظوں میں باندھ دیا ہوتا، تو شاید آج بھی محبت راستوں میں بکھرتی نہ، شاید شکیب کی غزلوں میں سسکیوں کی بازگشت یوں نہ سنائی دیتی، شاید حسن اپنی جیت پر یوں خاموش نہ ہوتا! مگر اے میرے فن کی معراج! اے میرے وجود کی مکمل نظم! یہ جو میں ہوں،یہ جو میری خامشی ہے، یہ جو تیرے لفظوں میں کھو جانے کی سرشاری ہے ہاں سچ ہے۔۔۔۔۔! یہ نہ آج مٹے گی،نہ کل،نہ کبھی......! ✍️ مہوش ملک ©Mehwish Malik #Thinking