ریلوے اسٹیشن پر سرد ہوا کے ہلکے جھونکے ہر چیز کو دھیرے دھیرے چھو کر گزر رہے تھے اسٹیشن کی پرانی اینٹوں سے بنی دیواریں اور لوہے کے پلر ایک خاموشی کے عالم میں کھڑے جیسے وقت کی گواہی دے رہے ہوں دور کہیں سے ٹرین کی ہلکی سی آواز سنائی دیتی اور کبھی کبھار انجن کی سیٹی ہوا میں گونج کر سکوت کو توڑ دیتی ایک پرانے لکڑی کے بینچ پر بیٹھی ایک اداس لڑکی جس کی نظریں پلیٹ فارم کے سامنے کی پٹڑیوں پر جمی ہوئی تھیں جہاں اب تک کوئی ٹرین نظر نہیں آ رہی اس کے بال ہوا کے ساتھ ہلکے ہلکے لہرا رہے تھے اور اس کے ہاتھوں میں ایک پرانا بیگ تھا،جسے وہ بے خیالی میں بار بار اپنے پہلو میں رکھ کر سیدھا کررہی تھی اس کے چہرے پر تھوڑی سی پریشانی اور بے چینی نمایاں تھی جیسے کسی خاص کا انتظار ہو پلیٹ فارم پر لوگوں کی موجودگی اس کے لیے غیر ضروری تھی وہ اکیلی بینچ پر بیٹھی، کبھی اپنے ہاتھوں کو دیکھتی،کبھی گھڑی کو ہوا میں سردی کا ایک گہرا لمس جو اس کی جِلد کو چِیرتا ہوا دل تک پہنچ کر انتظار کی بے چینی کو اور زیادہ بڑھا رہا تھا اسٹیشن کے لیمپوں کی مدھم روشنی نے پلیٹ فارم کو ایک خاموش سی زردی میں ڈبو دیا تھا اور لڑکی کے چہرے پر پڑنے والی یہ روشنی اسے اور بھی اداس دِکھا رہی تھی اس کی آنکھوں میں ایک خالی پن تھا جیسے وہ کسی گہری سوچ میں کھوئی ہو مگر ان سوچوں کی سمت بھی بکھری ہوئی تھی دور کہیں سے ایک ٹرین کی آہٹ سنائی دی لیکن یہ اس کی نہیں تھی ہر بار جب کوئی ٹرین قریب آتی اس کے دل میں امید کی ایک لہر اٹھتی مگر پھر جب وہ ٹرین پلیٹ فارم سے گزر جاتی ہے تو یہ لہر واپس ایک ویرانی میں ڈوب جاتی اس کا دل جیسے ٹوٹ رہا تھا مگر وہ ایک عجیب سی خاموشی میں قید نہ کسی سے کچھ کہہ سکتی تھی نہ پوچھ سکتی تھی مہوش ملک ©Mehwish Malik #Sad_Status