Nojoto: Largest Storytelling Platform

نظم پیچیدگی کا شکوہ اے حسنِ جاویداں! اے شبابِ لا

نظم
پیچیدگی کا شکوہ

اے حسنِ جاویداں! اے شبابِ لا زوال! اے شبِ ماہتاب کی ادھوری دعا، اور سحر کے ماتھے پر جھلملاتا ہوا خواب!
تُو نے اپنے دہکتے وجود کی دُشواریاں دیکھیں،میں نے اپنے لفظوں کے چراغ بجھتے دیکھے۔۔۔۔!
تُو نے اپنے گیسوؤں میں کہکشاں کا جال بُنا،میں نے اپنی شاعری کے آسمان پر ہمیشہ کے لیے اندھیرا کر لیا
تُو نے اپنی نتھ کی چمک میں اردو کے چار سو سال لپیٹ لیے،اور میں نے اپنی زبان کو تیری نظر کی جلتی ہوئی کرن کے صدقے گروی رکھ دیا....!
مگر جانِ جہاں،حسنِ لا فانی!
یہ جو تیری گردن کے ہار ہیں،یہ جو تیری کلائیوں کی چوڑیاں ہیں
یہ جو تیرے زیور کی چھنک میں دفن کئی عاشقوں کے مزار ہیں
یہ جو تیری بالیوں کی سرگوشیاں ہیں جو میدانِ عرفات سے پرے بھی مجھے بہا لے جاتی ہیں
یہ جو تیری جوبن کی حرارت ہے،جو صحرا میں جلتے مسافروں کو سراب سے بھی زیادہ بےقرار کر دے
یہ سب تو فقط وہ آئینے ہیں جن میں،میں نے اپنے خوابوں کو جل کر راکھ بنتے دیکھا ہے!
اے مجسمِ پیچیدگی!
تُو نے کہا کہ تیری خلوت کے اسرار کسی بحر میں نہیں سما سکتے،
اور میں کہتا ہوں کہ میری زبان کی لَو اتنی تیز نہیں کہ تیرے لمس کی حدت کو بیان کر سکے!
یہ جو میں نثری نظم کی پناہ میں آیا ہوں،
یہ جو میں نے شاعری کی بحریں توڑ دی ہیں،
یہ جو میرے قلم نے اپنا خراجِ عقیدت وقت کے خنجر پر وار کر ادا کیا ہے
یہ سب تیرے جلوؤں کی تاب نہ لانے کی علامت ہے، نہ کہ میرے ہنر کی شکست!
اے دلنواز! اے عالمِ وجد کی آخری صدا!
اگر تجھے سمجھنے والے کم ہیں،تو کیا ہوا؟
زمانے کی ستم ظریفی پر رو لینے والے بہت ہیں،
مگر وقت کے بے رحم دریا کو تیری زلفوں کی روانی میں بہا دینے والے کم کم ہی ملیں گے۔۔۔۔۔
اگر میں نے ساٹھ برس قبل تجھے لفظوں میں باندھ دیا ہوتا،
تو شاید شاعری کی ریل پٹڑیوں پر بکھرتی نہ اور
شاید شکیب جیسے نوحہ گر اپنی غزلوں میں یوں تڑپتے نہ،
شاید محبت کو ہار جانے والے،حسن کی جیت پر سرِ عام تالیاں بجاتے!
مگر اے سراپا جمال،اے تمام صدیوں کا چراغ!
یہ جو میں ہوں، یہ جو میرا قلم ہے،یہ جو میری بے ساختگی ہے،
یہ جو تیرے جوبن کی پیچیدگی میں کھو جانے کی معصوم خواہش ہے
یہ نہ آج مٹے گی،نہ کل، نہ کبھی!
✍️ مہوش ملک

©Mehwish Malik #Thinking
نظم
پیچیدگی کا شکوہ

اے حسنِ جاویداں! اے شبابِ لا زوال! اے شبِ ماہتاب کی ادھوری دعا، اور سحر کے ماتھے پر جھلملاتا ہوا خواب!
تُو نے اپنے دہکتے وجود کی دُشواریاں دیکھیں،میں نے اپنے لفظوں کے چراغ بجھتے دیکھے۔۔۔۔!
تُو نے اپنے گیسوؤں میں کہکشاں کا جال بُنا،میں نے اپنی شاعری کے آسمان پر ہمیشہ کے لیے اندھیرا کر لیا
تُو نے اپنی نتھ کی چمک میں اردو کے چار سو سال لپیٹ لیے،اور میں نے اپنی زبان کو تیری نظر کی جلتی ہوئی کرن کے صدقے گروی رکھ دیا....!
مگر جانِ جہاں،حسنِ لا فانی!
یہ جو تیری گردن کے ہار ہیں،یہ جو تیری کلائیوں کی چوڑیاں ہیں
یہ جو تیرے زیور کی چھنک میں دفن کئی عاشقوں کے مزار ہیں
یہ جو تیری بالیوں کی سرگوشیاں ہیں جو میدانِ عرفات سے پرے بھی مجھے بہا لے جاتی ہیں
یہ جو تیری جوبن کی حرارت ہے،جو صحرا میں جلتے مسافروں کو سراب سے بھی زیادہ بےقرار کر دے
یہ سب تو فقط وہ آئینے ہیں جن میں،میں نے اپنے خوابوں کو جل کر راکھ بنتے دیکھا ہے!
اے مجسمِ پیچیدگی!
تُو نے کہا کہ تیری خلوت کے اسرار کسی بحر میں نہیں سما سکتے،
اور میں کہتا ہوں کہ میری زبان کی لَو اتنی تیز نہیں کہ تیرے لمس کی حدت کو بیان کر سکے!
یہ جو میں نثری نظم کی پناہ میں آیا ہوں،
یہ جو میں نے شاعری کی بحریں توڑ دی ہیں،
یہ جو میرے قلم نے اپنا خراجِ عقیدت وقت کے خنجر پر وار کر ادا کیا ہے
یہ سب تیرے جلوؤں کی تاب نہ لانے کی علامت ہے، نہ کہ میرے ہنر کی شکست!
اے دلنواز! اے عالمِ وجد کی آخری صدا!
اگر تجھے سمجھنے والے کم ہیں،تو کیا ہوا؟
زمانے کی ستم ظریفی پر رو لینے والے بہت ہیں،
مگر وقت کے بے رحم دریا کو تیری زلفوں کی روانی میں بہا دینے والے کم کم ہی ملیں گے۔۔۔۔۔
اگر میں نے ساٹھ برس قبل تجھے لفظوں میں باندھ دیا ہوتا،
تو شاید شاعری کی ریل پٹڑیوں پر بکھرتی نہ اور
شاید شکیب جیسے نوحہ گر اپنی غزلوں میں یوں تڑپتے نہ،
شاید محبت کو ہار جانے والے،حسن کی جیت پر سرِ عام تالیاں بجاتے!
مگر اے سراپا جمال،اے تمام صدیوں کا چراغ!
یہ جو میں ہوں، یہ جو میرا قلم ہے،یہ جو میری بے ساختگی ہے،
یہ جو تیرے جوبن کی پیچیدگی میں کھو جانے کی معصوم خواہش ہے
یہ نہ آج مٹے گی،نہ کل، نہ کبھی!
✍️ مہوش ملک

©Mehwish Malik #Thinking
mehwishmalik8276

Mehwish Malik

New Creator
streak icon4