نہ غیر کا دکھ مجھے ہے نہ اغیار کا دکھ مار ڈالے گا کسی روز مجھے یار کا دکھ ایک ہاتھ سے بنائے ہوئے فن پارے نہ بکے کوئی کیسے سمجھتا معذور فنکار کا دکھ وہ بے وفا اور طرفہ تماشہ کے میں غریب عشق چھوڑے گا تو مار ڈالے روزگار کا دکھ ہاتھ چوکھٹ سے بھی خالی جو آ جائے انکی کوئی بے اولاد سمجھ سکتا ہے طلبگار کا دکھ بے بسی تنہائی ہجر یاد اور راتوں کا رونا دھونا کس طرح میں یہ سمیٹوں تیرے انکار کا دکھ سسکیاں لفظ بھی بھرتے ہیں میری شاعری کے ہائے تیرے نام کی غزلوں پہ میرے اشعار کا دکھ ولی تو میرے سامنے کسی اور کا ہوتا ہی گیا اک تیری جیت کا دکھ ہے اک اپنی ہار کا دکھ شاعر زاویار ولی #wali #1 #2 #3 #4 #nojoto