Nojoto: Largest Storytelling Platform

اردو صرف ایک زبان کا نام نہیں بلکہ ایک تہذیب کا نا

اردو صرف ایک زبان کا نام نہیں بلکہ ایک تہذیب کا نام ہے اس تہذیب کا جس کے ہم پروردہ ہیں۔ اور جس کی آبیاری نہ صرف ہمارے قدما نے کی بلکہ آج کی نسل بھی اس کی ترقی و بقا کے لیے متحرک ہے۔ اس کے فروغ میں ماضی کی کاوشوں کے ساتھ عصر حاضر کی جدو جہد بھی لائق ستائش ہے۔اسے ہر محاذ پر ڈٹے رہنے کا حوصلہ بھی ملا اور تحفظ و بقا کی خاطر کامیاب کوششیں بھی کی گئیں۔ اس ضمن میں اردو زبان کے ابتدائی سفر کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوسکے گاکہ اردو کے تحفظ اوربقا کے لیے کسی نہ کسی طرح ہر زمانے میں پے در پے کوششیں ہوئی ہیں اور ہوتی رہیں گی۔ کیونکہ ہماری زبان میں رد و قبول کی صلاحیت موجود ہے۔اور یہی وصف اسے آج بھی زندہ و تابندہ کیے ہوئے ہے۔اردو زبان نے خوشگوار تبدیلیوں کا تو ہمیشہ خیرمقدم کیا مگر اپنی پرانی شناخت کو کسی بھی طرح معدوم نہ ہونے دیا۔اسی سبب اس کے ارتقا کے مثبت و موثر امکانات روشن ہوتے گئے۔
مشترکہ تہذیب کی علامت، ہمارا ملک ہندوستان صدیوں سے اردو تہذیب کا امین رہا ہے۔اس کے گہوارے میں ہی ہماری زبان پرورش پاتی رہی اور ادب نے کروٹیں بدلیں۔ مختلف اقوام کی ہم آہنگی سے ملک کی رنگا رنگ تہذیب پروان چڑھتی رہی۔ ابتدا میں یہاں بولی جانے والی زبان ہندوی یا ہندوستانی تھی جس کو عوام میں مقبولیت حاصل تھی۔اسی عوامی زبان کو ہم آج اردو کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔۔ اس سلسلے میں گوپی چند نارنگ یوں رقمطراز ہیں:
 ”……کوئی بھی سچائی جب جنم لیتی ہے،اس کا کوئی نام نہیں ہوتا۔ سچائیوں کو نام تو اس وقت ملتا ہے جب وہ خانہ زاد ہوجاتی ہیں۔پراکرتوں کی دھرتی سے جب نیا اکھوا پھوٹا اور اس میں عربی، فارسی، ترکی اثرات کا پیوند لگا تو اس کا کوئی بھی نام نہیں تھا،ہند یعنی ہندوستان کی ہر چیز ’ہندی‘ تھی، فارسی یائے نسبتی کے ساتھ، اس طرح ہر زبان ہندی تھی۔امیر خسرو نے اسے ہندوی بھی کہا اور دہلوی بھی۔ اسی زمانے میں جب راگ رنگ کی محفلوں میں اس کے نغمے سماں باندھنے لگے، تو اسے ریختہ بھی کہا گیا۔ دکن اورگجرات پہنچی تو دکنی اور گجری کہلائی، پھر کسی نے اردو کہا، کسی نے ہندی، کسی نے کھڑی، بنیاد وہی ایک، راہیں الگ الگ ہو گئیں۔

2

©Mr. Eram #City 2
اردو صرف ایک زبان کا نام نہیں بلکہ ایک تہذیب کا نام ہے اس تہذیب کا جس کے ہم پروردہ ہیں۔ اور جس کی آبیاری نہ صرف ہمارے قدما نے کی بلکہ آج کی نسل بھی اس کی ترقی و بقا کے لیے متحرک ہے۔ اس کے فروغ میں ماضی کی کاوشوں کے ساتھ عصر حاضر کی جدو جہد بھی لائق ستائش ہے۔اسے ہر محاذ پر ڈٹے رہنے کا حوصلہ بھی ملا اور تحفظ و بقا کی خاطر کامیاب کوششیں بھی کی گئیں۔ اس ضمن میں اردو زبان کے ابتدائی سفر کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوسکے گاکہ اردو کے تحفظ اوربقا کے لیے کسی نہ کسی طرح ہر زمانے میں پے در پے کوششیں ہوئی ہیں اور ہوتی رہیں گی۔ کیونکہ ہماری زبان میں رد و قبول کی صلاحیت موجود ہے۔اور یہی وصف اسے آج بھی زندہ و تابندہ کیے ہوئے ہے۔اردو زبان نے خوشگوار تبدیلیوں کا تو ہمیشہ خیرمقدم کیا مگر اپنی پرانی شناخت کو کسی بھی طرح معدوم نہ ہونے دیا۔اسی سبب اس کے ارتقا کے مثبت و موثر امکانات روشن ہوتے گئے۔
مشترکہ تہذیب کی علامت، ہمارا ملک ہندوستان صدیوں سے اردو تہذیب کا امین رہا ہے۔اس کے گہوارے میں ہی ہماری زبان پرورش پاتی رہی اور ادب نے کروٹیں بدلیں۔ مختلف اقوام کی ہم آہنگی سے ملک کی رنگا رنگ تہذیب پروان چڑھتی رہی۔ ابتدا میں یہاں بولی جانے والی زبان ہندوی یا ہندوستانی تھی جس کو عوام میں مقبولیت حاصل تھی۔اسی عوامی زبان کو ہم آج اردو کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔۔ اس سلسلے میں گوپی چند نارنگ یوں رقمطراز ہیں:
 ”……کوئی بھی سچائی جب جنم لیتی ہے،اس کا کوئی نام نہیں ہوتا۔ سچائیوں کو نام تو اس وقت ملتا ہے جب وہ خانہ زاد ہوجاتی ہیں۔پراکرتوں کی دھرتی سے جب نیا اکھوا پھوٹا اور اس میں عربی، فارسی، ترکی اثرات کا پیوند لگا تو اس کا کوئی بھی نام نہیں تھا،ہند یعنی ہندوستان کی ہر چیز ’ہندی‘ تھی، فارسی یائے نسبتی کے ساتھ، اس طرح ہر زبان ہندی تھی۔امیر خسرو نے اسے ہندوی بھی کہا اور دہلوی بھی۔ اسی زمانے میں جب راگ رنگ کی محفلوں میں اس کے نغمے سماں باندھنے لگے، تو اسے ریختہ بھی کہا گیا۔ دکن اورگجرات پہنچی تو دکنی اور گجری کہلائی، پھر کسی نے اردو کہا، کسی نے ہندی، کسی نے کھڑی، بنیاد وہی ایک، راہیں الگ الگ ہو گئیں۔

2

©Mr. Eram #City 2