دریا تو دیکھے ہیں سمندر نہیں دیکھا تم نے جھانک کر کبھی اپنے اندر نہیں دیکھا سب کچھ مل کر بھی خواب رہے ادھورے تم نے فقیر تو دیکھے ہیں سکندر نہیں دیکھا آسماں چیخ رہا ہے دیکھ کر حیوانیت زمیں نےاِس سے پہلے ایسا منظر نہیں دیکھا بولیں فرش پر تو صدا جاتی ہے عرش تک تم نے شاہ دیکھے ہیں قلندر نہیں دیکھا صبح و شام کرتا رہتا ہے خود ہی پر ظلم انساں سے بڑھ کر کوئی ستمگر نہیں دیکھا اٹھا ہے آج پھر میری خاموشی پر سوال شاید کے یاسر اُس نے سمندر نہیں دیکھا ©Yasir Sardar #Walk