بے سبب حالات کا ماتم کیا جانے کس کس بات کا ماتم کیا اک دیے سے چھٹ گئیں تاریکیاں روشنی نے رات کاماتم کیا خود سے بھی آنکھیں چرا کر چل پڑا روزو شب اوقات کا ماتم کیا فکرو فاقہ نے گھٹایا قد مرا اور اپنی ذات کا ماتم کیا کیوں اذیت بڑھ رہی ہے ناصحا رنج تھا جذبات کاماتم کیا زندگی جب مرگ میں لپٹی ملی ان گنت صدمات کاماتم کیا اس کے لہجے سے عیاں تھی دشمنی اس لیے بد ذات کا ماتم کیا Matam Kiya