تیری نظر کافی تھی میرے جینے کیلے میرے غم کافی تھا تیرے مرنے کیلے. رخ موڑ کر یوں جو تم خفا بیٹھ گے یہ ہی میرے لیے کافی تھا مرنے کیلے. اک خواہش تھی دل کے کسی کونے میں اُس کا مر جانا کافی تھا مرنے کیلے. نہ تیرا ضرور چلا اور نہ ہی میرا بس جدائی قسمت کافی تھی مرنے کیلے. ساری عمر گزرا گی اُس کی نہ پہ اک ہاں ہی کافی تھی مرنے کیلے. طوفان اگ سینہ میں بند ہے عیسی کے بولے تو یہ ہی کافی ہے مرنے کیلے